حسین لوگ سراسر بھلا دئیے جائیں
یہ روگ اور کسی کو لگا دئیے جائیں
میں آدھے سچ پہ کہاں زندگی گزارتا ہوں
سو مِرے خواب کِسی اور کو دِکھا دئیے جائیں
یہ عشق ہارنے والوں کی خیمہ بستی ہے
یہاں چراغ نہیں،۔ دِل جلا دئیے جائیں
میں خود کو دیکھ کے بے زار ہونے لگتا ہوں
اب آئینے میرے گھر سے ہٹا دئیے جائیں
نئے غموں کو نئے آنسوؤں سے رغبت ہے
پرانے اشک ہیں جتنے، بہا دئیے جائیں
نئے زمانے میں اب رفتگاں بھی شامل ہوں
تو مرقدوں میں دریچے بنا دئیے جائیں
اعجاز توکل
No comments:
Post a Comment