Friday, 29 April 2022

دن چھپ گیا سورج کا کہیں نام نہیں ہے

 دن چھپ گیا سورج کا کہیں نام نہیں ہے

او وعدہ شکن! اب بھی تیری شام نہیں ہے

یہ جلوہ بہت خاص ہے کچھ عام نہیں ہے

کمزور نگاہوں کا یہاں کام نہیں ہے

اپنا ہی لہو دے کے گلستاں کو نکھارا

اپنا ہی گلستاں میں کہیں نام نہیں ہے

کیوں کرتا ہوں ساقی کا کرم عام نہیں ہے

اپنے ہی مقدر میں کوئی جام نہیں ہے

بیمار کا دم ٹوٹ چکا، اٹھ چکی میت

اب آپ کے جانے کا وہاں کام نہیں ہے

دیوانے تو سب ان کے ہیں مگر فرق ہے اتنا

بدنام ہے کوئی،۔ کوئی بدنام نہیں ہے

کیوں یاس سے محشر میں چھپے دیکھ رہے ہو

کہہ تو دیا؛ تم پر کوئی الزام نہیں ہے

گردشِ افلاک سلامت ہے تو ان سے

گنواؤں نہ تارے تو قمر نام نہیں ہے


استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment