خونِ دل ہوتا رہا تلخیٔ اظہار کے ساتھ
آدمی قتل کہاں ہوتا ہے تلوار کے ساتھ
پا بہ زنجیر اندھیرے میں مقید رکھنا
یہ کسی طور مناسب نہیں بیمار کے ساتھ
جان جانے کا کوئی خوف نہیں ہے مجھ کو
حق بہ جانب، میں کھڑا ہوں تِرے انکار کے ساتھ
کون پونچھے گا مِری آنکھ سے بہتے آنسو
کون سینے سے لگائے گا مجھے پیار کے ساتھ
روزِ اول سے غلامی کا شرف بخشا گیا
روزِ اول سے ہے نسبت مِری سرکار کے ساتھ
میری فطرت میں وفا رکھی گئی ہے امجد
کس طرح ہاتھ ملاتا کسی غدار کے ساتھ
حسین امجد
No comments:
Post a Comment