چل دیا وہ اس طرح مجھ کو پریشاں چھوڑ کر
موسمِ گل جیسے جائے ہے گلستاں چھوڑ کر
گو بھروسہ ہے مجھے اپنے خلوصِ شوق پر
کون آئے گا یہاں جشنِ بہاراں چھوڑ کر
وہ جو اپنے ساتھ لایا تھا گلستاں کی بہار
جا رہا ہے اب کہاں وہ گھر کو ویراں چھوڑ کر
یوں لگا مجھ کو کہ گویا حشر برپا ہو گیا
یک بیک وہ چل دیا میرا شبستاں چھوڑ کر
مجھ کو شوقِ حسن میں تہذیب حاضر چاہیے
گلستاں میں آ گیا ہوں میں بیاباں چھوڑ کر
لالہ و گل میں عیاں ہیں حسنِ فطرت کے رموز
مطمئن ہوں عشق میں دشت و بیاباں چھوڑ کر
یوں سرِ محفل، وقارِ حسن کو رسوا نہ کر
اس کا دامن تھام لے اپنا گریباں چھوڑ کر
جی رہا ہوں رشک کے ماحول میں کچھ اس طرح
جس طرح یوسف گیا تھا ارضِ کنعاں چھوڑ کر
میں نے خود اس کے تصور کو بلایا ہے یہاں
اب نہیں جاؤں گا باہر گھر میں مہماں چھوڑ کر
ہو گیا پیدا نظامِ گل میں بے حد انتشار
جب گیا گلشن میں وہ زلفیں پریشاں چھوڑ کر
سوزشِ الفت مجھے مطلوب ہے بہر حیات
ہو گیا ہوں مطمئن میں رسمِ درماں چھوڑ کر
کس قدر ضبط جنوں نے کر دیا ہے ہوشیار
دامن امید تھاما ہے گریباں چھوڑ کر
میں تلاشِ حسن سے ایسا ہوا ہوں منسلک
جا رہا ہوں زندگی کا ساز و ساماں چھوڑ کر
زاہد چوہدری
No comments:
Post a Comment