Friday, 29 April 2022

اس نے کیوں بنایا تھا خاندان شیشے کا

 اس نے کیوں بنایا تھا خاندان شیشے کا

اب تلاش کرتا ہے اک مکان شیشے کا

زندگی کی رعنائی کیا اسے ثمر دے گی

اوڑھ کر جو پھرتا ہے سائبان شیشے ک

بات ہو نا پائے گی صرف چیخ ابھرے گی

ٹوٹ جائے گا دل جب بے زبان شیشے کا

آج ہم نے دیکھا ہے اس کے ہاتھ میں پتھر

جس کو سارے کہتے تھے پاسبان شیشے کا

بارہا یہ دیکھا ہے کار ساز ہستی میں 

کرچیوں پہ چلتا ہے قدر دان شیشے کا

دیکھنے میں وہ یارو اعلیٰ ظرف لگتا ہے

جانے چاہتا ہے کیوں امتحان شیشے کا

سامنے کبھی اس کے آئینہ نہ لے آنا

ٹوٹ جائے گا جرار ورنہ مان شیشے کا

 

آغا جرار

No comments:

Post a Comment