اس نے کیوں بنایا تھا خاندان شیشے کا
اب تلاش کرتا ہے اک مکان شیشے کا
زندگی کی رعنائی کیا اسے ثمر دے گی
اوڑھ کر جو پھرتا ہے سائبان شیشے ک
بات ہو نا پائے گی صرف چیخ ابھرے گی
ٹوٹ جائے گا دل جب بے زبان شیشے کا
آج ہم نے دیکھا ہے اس کے ہاتھ میں پتھر
جس کو سارے کہتے تھے پاسبان شیشے کا
بارہا یہ دیکھا ہے کار ساز ہستی میں
کرچیوں پہ چلتا ہے قدر دان شیشے کا
دیکھنے میں وہ یارو اعلیٰ ظرف لگتا ہے
جانے چاہتا ہے کیوں امتحان شیشے کا
سامنے کبھی اس کے آئینہ نہ لے آنا
ٹوٹ جائے گا جرار ورنہ مان شیشے کا
آغا جرار
No comments:
Post a Comment