Friday, 29 April 2022

اسی سہارے پہ دن ہجر کا گزارا ہے

 اسی سہارے پہ دن ہجر کا گزارا ہے

خیالِ یار، ہمیں یار سے بھی پیارا ہے

صبا کا، ابر کا، شبنم کا ہاتھ اپنی جگہ

کلی کو پھول نے جھک جھک کے ہی نکھارا ہے

کسی کے ہاتھ پہ مہندی سے دل بنا دیکھا

میں یہ بھی کہہ نہ سکا؛ یہ تو دل ہمارا ہے

نقاب پالکی میں بھول آئے کیوں حضرت

تمام شہر نے کیا آپ کا بگاڑا ہے

تم آسماں پہ نہ ڈھونڈو سیاہ بدلی کو

کسی نے ہاتھ سے گیسو ذرا سنوارا ہے

چلو بہارِ چمن لے کے گھر کو لوٹ چلیں

دھنک کی لے میں کسی شوخ نے پکارا ہے

یہ ہاتھ چھوڑنے سے پیشتر خیال رہے

خدا کے بعد فقط آپ کا سہارا ہے

جو عمر بیت چکی وہ حسابِ ہجر میں لکھ

جو سانس باقی ہے دنیا میں وہ تمہارا ہے

گھٹا، صراحی، دھنک، جھیل، پنکھڑی، شبنم

بدن ہے یا کسی شاعر کا استعارہ ہے

صنم کو دیکھ کے، کچی کلی نے کھل کے کہا

’’بہت ہی اونچی جگہ قیس ہاتھ مارا ہے‘‘


شہزاد قیس

No comments:

Post a Comment