چھوڑ کے دشتِ جنوں میرے نگر میں آیا
قیس صدقے تِرے استاد کے گھر میں آیا
کیا تِرا ہجر مِری راہگزر میں آیا
درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے جگر میں آیا
اپنے غم کو نہ مِرے دل سے کہیں جانے دے
بڑی مدت سے یہ مہمان ہے گھر میں آیا
اس نے بس اتنا کہا؛ آ مِرے سینے سے لگ
پھر تو جس طرح مِرا ہاتھ کمر میں آیا
لاکھ بچتا ہوں مگر اس سے بچا جاتا نہیں
درد کہتا ہے؛ تِرا لے، میں جگر میں آیا
باخدا تجھ کو سخن ہی سے خدا کر دوں گا
معجزہ یہ بھی اگر میرے ہنر میں آیا
لذتِ غم تِرے صدقے کہ سوا غم کے لیے
دوسرا ایک جگر میرے جگر میں آیا
میرے مرنے کا بھی سنتے نہیں وہ کہتے ہیں
کون کمبخت ہے یہ، کیسے خبر میں آیا؟
اور سنو! جلتے ہیں جنت میں بھی وہ حوروں سے
ڈھونڈتے پِھرتے ہیں، بل کس کی کمر میں آیا
شکر حارث کا فنِ شعر میں بنتا ہی نہیں
شعر خود شکر منائے کہ ہنر میں آیا
حارث علی
No comments:
Post a Comment