بھلے وہ بے اصول ہے، قبول ہے
کوئی بھی اس کی بھول ہے قبول ہے
گلاب پاؤں ہیں تِرے، نہ پیار کر
یہ راستہ ببول ہے، قبول ہے؟
وہ جھونکتا ہے میری آنکھ میں تو کیا
ذرا سی ہی تو دھول ہے، قبول ہے
یہ پیار ہے سو پیار میں حساب کیا
جو حاصل و وصول ہے، قبول ہے
ارے، مجھے تمہارا پیار چاہیے
سو جو بھی اس کا مول ہے، قبول ہے
تو کیا تمہیں یہ میرے ہاتھ پر رکھا
گلاب کا جو پھول ہے، قبول ہے
تمہیں عوام نے چُنا یہ سوچ کر
کہ جیسا بھی فضول ہے، قبول ہے
کبھی کچھ ایسا پوچھ لو کہ میں کہوں
قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے
عامر امیر
No comments:
Post a Comment