اپنی چمک دمک سے لبھایا تو تھا مجھے
دنیا نے اپنا رنگ دکھایا تو تھا مجھے
میں نے یقیں کیا نہ تھا دنیا کی بات پر
تُو بے وفا ہے اس نے بتایا تو تھا مجھے
میرے عدو سے اس نے مراسم بڑھائے تھے
اپنی طرف سے اس نے جلایا تو تھا مجھے
نیندوں نے ایک خواب کا تحفہ دیا تو تھا
صحرا میں ایک پھول دکھایا تو تھا مجھے
رب نے کسی کی نظروں میں گرنے نہیں دیا
اپنی طرف سے تُو نے گرایا تو تھا مجھے
جا کر لگا تھا جس میں بلایا نہیں گیا
اس بزم میں کسی نے بلایا تو تھا مجھے
ایسا نہیں کہ دنیا بری ہے، بری فقط
اک بار اِس نے اُس سے ملایا تو تھا مجھے
تیمور اس کو بھول کے ممکن ہے خوش رہوں
اتنا برا خیال بھی آیا تو تھا مجھے
تیمور حسن
No comments:
Post a Comment