Saturday 30 April 2022

دشت و صحرا اگر بسائے ہیں

 دشت و صحرا اگر بسائے ہیں

ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں

آپ نغموں کے منتظر ہوں گے

ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں

ایک اپنا دِیا جلانے کو

تم نے لاکھوں دِیے بجھائے ہیں

کیا نظر آئے گا ابھی ہم کو

یک بیک روشنی سے آئے ہیں

یوں تو سارا چمن ہمارا ہے

پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں


شکیب جلالی

No comments:

Post a Comment