سفر سے واسطہ تو عمر بھر رہا مجھ سے
وہ میرا یار چلا پر جدا جدا مجھ سے
سویرا ہونے سے پہلے ہی خواب ٹوٹ گیا
وہ رات کس لیے پہلو بجا گیا مجھ سے
وفا کے شہر محبت کی شاہراہوں پر
وہ دلنواز بشر خود ہی آ ملا مجھ سے
مِری ہی خاک نے ڈالی بِنائے مہر و وفا
جنوں کی ابتدا مجھ سے ہے انتہا مجھ سے
بہت سے لوگ مِری زندگی میں آئے گئے
وہ چاہ کر بھی نہیں ہو سکا جدا مجھ سے
درِ قفس تو کُھلا چھوڑ گیا تھا صیاد
میں کیسے جاتا مِرا عہد بندھا تھا مجھ سے
جو سنگ میں نے تراشا تھا کتنے چاؤ سے ساز
تھا کہلوانے کے در پہ خدا خدا مجھ سے
ساز دہلوی
No comments:
Post a Comment