Wednesday 27 April 2022

سفر سے واسطہ تو عمر بھر رہا مجھ سے

 سفر سے واسطہ تو عمر بھر رہا مجھ سے

وہ میرا یار چلا پر جدا جدا مجھ سے

سویرا ہونے سے پہلے ہی خواب ٹوٹ گیا

وہ رات کس لیے پہلو بجا گیا مجھ سے

وفا کے شہر محبت کی شاہراہوں پر

وہ دلنواز بشر خود ہی آ ملا مجھ سے

مِری ہی خاک نے ڈالی بِنائے مہر و وفا

جنوں کی ابتدا مجھ سے ہے انتہا مجھ سے

بہت سے لوگ مِری زندگی میں آئے گئے

وہ چاہ کر بھی نہیں ہو سکا جدا مجھ سے

درِ قفس تو کُھلا چھوڑ گیا تھا صیاد

میں کیسے جاتا مِرا عہد بندھا تھا مجھ سے

جو سنگ میں نے تراشا تھا کتنے چاؤ سے ساز

تھا کہلوانے کے در پہ خدا خدا مجھ سے


ساز دہلوی

No comments:

Post a Comment