Friday, 29 April 2022

وقت میری سوچ کو زنجیر کر

آئسولیشن ڈیز


میری آنکھوں کی جبیں پر آخرش وہ کون سا گمنام آنسو 

ایک لمحے کی سزا پانے کے بعد 

مسکرانے کی تمنا کر رہا ہے 

ایک آنسو 

مر رہا 

اس کی دنیا وصل کے پُر نُور لمحوں کی محبت میں ہے گزری 

اس کی سانسیں موت کی آغوش میں ٹھہری رہیں پر وقت کتنا بے ثمر ہے 

راکھ ہوتی خواہشوں پر ہنس رہا ہے 

وقت کا کوئی نہیں ہے 

واقعی 

کیا وقت کا کوئی نہیں 

کوئی گر ہوتا تو یوں ہی وقت 

لاشوں پر دھمالیں ڈال کر نہ لوٹ جاتا

وقت ! بے رحمی تری نے مار ڈالا 

پر نہیں

اب میں سمجھا

 ہے ترا بدلہ مقدم

میں کدورت سے بھرے دل کی صدا ہوں

میں فرشتوں سے تھا افضل

پر میں اب کہ اپنے ہی کھودے کنوئیں میں آ گرا ہوں

وقت تیرا عارفانہ قلب سب کچھ جانتا ہے

وقت میں کتنا برا ہوں

وقت میں پھلواڑیوں سے سیدھا آ کر

کچرے کے اس ڈھیر میں کیسے گرا ہوں؟ 

وقت یہ معدوم ہوتی مردنی بھی چھین لے

وقت میری سوچ کو زنجیر کر 

اب مرے اس نفس کو تو تیر کر

وقت آ اب خود کو تو شمشیر کر 


تحسین گیلانی

No comments:

Post a Comment