آئسولیشن ڈیز
میری آنکھوں کی جبیں پر آخرش وہ کون سا گمنام آنسو
ایک لمحے کی سزا پانے کے بعد
مسکرانے کی تمنا کر رہا ہے
ایک آنسو
مر رہا
اس کی دنیا وصل کے پُر نُور لمحوں کی محبت میں ہے گزری
اس کی سانسیں موت کی آغوش میں ٹھہری رہیں پر وقت کتنا بے ثمر ہے
راکھ ہوتی خواہشوں پر ہنس رہا ہے
وقت کا کوئی نہیں ہے
واقعی
کیا وقت کا کوئی نہیں
کوئی گر ہوتا تو یوں ہی وقت
لاشوں پر دھمالیں ڈال کر نہ لوٹ جاتا
وقت ! بے رحمی تری نے مار ڈالا
پر نہیں
اب میں سمجھا
ہے ترا بدلہ مقدم
میں کدورت سے بھرے دل کی صدا ہوں
میں فرشتوں سے تھا افضل
پر میں اب کہ اپنے ہی کھودے کنوئیں میں آ گرا ہوں
وقت تیرا عارفانہ قلب سب کچھ جانتا ہے
وقت میں کتنا برا ہوں
وقت میں پھلواڑیوں سے سیدھا آ کر
کچرے کے اس ڈھیر میں کیسے گرا ہوں؟
وقت یہ معدوم ہوتی مردنی بھی چھین لے
وقت میری سوچ کو زنجیر کر
اب مرے اس نفس کو تو تیر کر
وقت آ اب خود کو تو شمشیر کر
تحسین گیلانی
No comments:
Post a Comment