Saturday 30 April 2022

زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے

 زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے

تیر لہجے کا کلیجے میں اتر جاتا ہے

موج کی موت ہے ساحل کا نظر آجانا

شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے

شعبدہ کیسا دکھایا ہے مسیحائی نے

سانس چلتی ہے، بھلے آدمی مر جاتا ہے

مندروں میں بھی تو دعائیں سنی جاتی ہیں

اشک بہہ جائیں جدھر، مولا ادھر جاتا ہے

حسن افزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا

پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے

غالباً تخت پہ جنات کا سایہ ہو گا

کچھ تو ہے ہر کوئی آتے ہی مکر جاتا ہے

گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اقرب

سر بچا لوں تو مِرا ذوق ہنر جاتا ہے

قیس! اگر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد

سوچنے والا تو اس دور میں مر جاتا ہے


شہزاد قیس​

No comments:

Post a Comment