چمکتے ہیں جو داغِ دل وہ مِٹ جایا نہیں کرتے
امنگوں کے دئیے الفت میں کجلایا نہیں کرتے
اسی دلکش ادا سے سامنے آیا نہیں کرتے
تم اب کیوں مسکرا کر پھول برسایا نہیں کرتے
وہ اک ہم ہیں جہنیں عرضِ وفا پر بھی حیا آئے
وہ اک تم ہو جفاؤں سے بھی شرمایا نہیں کرتے
بہارِ جاوِداں حاصل ہے میرے دل کے داغوں کو
یہ وہ گل ہیں خزاں میں بھی جو مرجھایا نہیں کرتے
تم اپنے چاہنے والوں کو تسکیں دو، تسلی دو
کرم کرتے ہیں چاہت میں، ستم ڈھایا نہیں کرتے
ملاقاتیں نہ ہوں،۔ اتنا تعلق تو رہے باقی
کوئی پیغام ہی آئے جو خود آیا نہیں کرتے
تہمارے وعدۂ فردا کا مجھ کو اعتبار آیا
سنا ہے تم کبھی جھوٹی قسم کھایا نہیں کرتے
جمی ہے محفلِ احباب یہ گھڑیاں غنیمت ہیں
خدا شاہد، یہ لمحے بار بار آیا نہیں کرتے
جنابِ شیخ سے ہے مختلف اپنی قدح نوشی
کہ ہم پی کر بہک جاتے ہیں، بہکایا نہیں کرتے
نصیر اس کوچۂ الفت میں رسوائی بھی ہوتی ہے
مصیبت آ پڑے سر پر تو گھبرایا نہیں کرتے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment