وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے
کہتے ہیں کسی نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے
پہلی سی وہ خوشبوئے تمنا بھی نہیں ہے
اس بار کوئی خوف ہوا کا بھی نہیں ہے
اس چاند کی انگڑائی سے روشن ہیں در و بام
جو پردہ شب رنگ پہ ابھرا بھی نہیں ہے
کہتے ہیں کہ اٹھنے کو ہے اب رسم محبت
اور اس کے سوا کوئی تماشا بھی نہیں ہے
اس شہر کی پہچان تھیں وہ پھول سی آنکھیں
اب یوں ہے کہ ان آنکھوں کا چرچا بھی نہیں ہے
کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجمل
اس گھر میں تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے
کبیر اجمل
No comments:
Post a Comment