Friday 29 April 2022

وہ خواب طلبگار تماشا بھی نہیں ہے

 وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے

کہتے ہیں کسی نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے

پہلی سی وہ خوشبوئے تمنا بھی نہیں ہے

اس بار کوئی خوف ہوا کا بھی نہیں ہے

اس چاند کی انگڑائی سے روشن ہیں در و بام

جو پردہ شب رنگ پہ ابھرا بھی نہیں ہے

کہتے ہیں کہ اٹھنے کو ہے اب رسم محبت

اور اس کے سوا کوئی تماشا بھی نہیں ہے

اس شہر کی پہچان تھیں وہ پھول سی آنکھیں

اب یوں ہے کہ ان آنکھوں کا چرچا بھی نہیں ہے

کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجمل

اس گھر میں تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے


 کبیر اجمل

No comments:

Post a Comment