مجھے بار بار صدا نہ دے، مری حسرتوں کو ہوا نہ دے
مِرے دل میں آتش عشق ہے، میری آگ تجھ کو جلا نہ دے
مِرا عشق ہے میری زندگی، مِرا عشق ہے میری بندگی
مجھے عاشقوں میں شمار کر، مجھے عاشقی کا صِلہ نہ دے
مجھے درد و سوز و گداز دے، مجھے اپنے غم سے نواز دے
تیرا درد بھی میرے دل میں ہو، مجھے درد دل کی دوا نہ دے
یہ مِرے جنوں کا غرور ہے، مجھے بے خودی میں سرور ہے
مجھے بار بار نہ یاد آ، مجھے ہو سکے تو وفا نہ دے
میں گدا نہیں ہوں فقیر ہوں،۔ میں قلندروں کا امیر ہوں
مجھے تجھ سے کچھ نہیں چاہیے، مجھے مانگنے کی ادا نہ دے
نہ ہے ابتداء مِرے عشق کی، نہ ہے انتہا مِرے عشق کی
میرا عشق ہی ہے مِرا خُدا، مجھے اور کوئی خُدا نہ دے
نہ طلب ہے فصلِ بہار کی، نہ نشیمن و گُل و خار کی
نہ ہے خوف برقِ تپاں مجھے کہ وہ آشیاں کو جلا نہ دے
بابا گلزار صابری
فقیر محمد صابری چشتی
No comments:
Post a Comment