ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے
امکان بھی حالات سنورنے کے نہیں تھے
بھر ڈالا انہیں بھی مِری بیدار نظر نے
جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے
اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تِری خاطر
وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے
کل رات تِری یاد نے طوفاں وہ اٹھایا
آنسو تھے کہ پلکوں پہ ٹھہرنے کے نہیں تھے
ان کو بھی اتارا ہے بڑے شوق سے ہم نے
جو نقش ابھی دل میں اترنے کے نہیں تھے
اے گردشِ ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے
زکریا شاذ
No comments:
Post a Comment