Wednesday, 27 April 2022

ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے

 ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے

امکان بھی حالات سنورنے کے نہیں تھے

بھر ڈالا انہیں بھی مِری بیدار نظر نے

جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے

اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تِری خاطر

وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے

کل رات تِری یاد نے طوفاں وہ اٹھایا

آنسو تھے کہ پلکوں پہ ٹھہرنے کے نہیں تھے

ان کو بھی اتارا ہے بڑے شوق سے ہم نے

جو نقش ابھی دل میں اترنے کے نہیں تھے

اے گردشِ ایام ہمیں رنج بہت ہے

کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے


زکریا شاذ

No comments:

Post a Comment