Saturday 30 April 2022

وہ مزہ اس کی چھوون میں ہے نہیں لطف ایسا بہار میں

 وہ مزہ اس کی چھوون میں ہے، نہیں لطف ایسا بہار میں

چلے جب صبا مِرا تن جلے، نہیں چین دل کو قرار میں

تِری مست مست نگاہ نے مجھے جام ایسا پلا دیا

مِرے ہمسفر! تجھے کیا خبر مجھے ہوش بھی ہے خمار میں

جنہیں زندگی کے تضاد بھی لگیں بوجھ بھاری پہاڑ سے

 ملی مشکلوں ہی میں مشکلیں انہیں ہر سُو راہِ فرار میں

کوئی خواب آنکھوں میں ڈال کر انہیں خاک میں ہی لپیٹ دیں 

یہ وہ لوگ ہیں جو کہ ہر گھڑی کریں فرق قول و قرار میں

کوئی بات ہو تو کروں بیاں، یہی زندگی کی ہے داستاں 

کبھی کھل رہی ہوں غبار میں، کبھی بجھ گئی ہوں بہار میں 

نہ مِری انا کو جھکا سکا، نہ نظر سے کوئی گرا سکا

تجھے کیا خبر تجھے کیا پتہ، رہی ہوں خودی کے حصار میں

سیہ بخت ہے بڑی سعدیہ، کرے رب سے کوئی گلہ بھی کیا

وہ بھنور ہی میں پھنسی رہ گئی، نہیں پہنچی ناؤ کنار میں 


سعدیہ صدف 

No comments:

Post a Comment