دل میں چبھے نہ جن کو کبھی خار زیست کے
کیا ان پہ آشکار ہوں اسرار زیست کے
سیکھا نہیں جنہوں نے سلیقہ کلام کا
تعلیم کرنے آئے ہیں اطوار زیست کے
زیبا تھی جن کو زیست جہاں سے گزر گئے
ہم مفت میں ہوئے ہیں سزاوار زیست کے
کیوں ہم پہ ہی تمام ہوئیں غم کی نعمتیں
کیا اک ہمی ہوئے تھے گنہگار زیست کے
دیکھی ہے ہم نے رونقِ نیرنگئ حیات
منظر بدل چکے ہیں کئی بار زیست کے
چکھی ہے ہم نے موت کی لذت ہزار بار
گزرے ہیں ہم پہ حادثے دو چار زیست کے
کارِ حیات ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا
اُلجھے تو پھر سلجھ نہ سکے تار زیست کے
اِک ایک سانس کے لیے کاسہ لیے پھریں
ایسے بھی ہم نہیں ہیں طلبگار زیست کے
رنگین ہے ہمارے لہو سے نصابِ زیست
عنواں رقم کیے ہیں، سرِدار زیست کے
اب آس ہے نہ کوئی تمنا نہ جستجو
باقی نہیں ہیں زیست میں آثار زیست کے
کیا زندگی کا رنگ ہو جانے ہمارے بعد
ہم آخری امیں ہیں، طرحدار زیست کے
مشتاق عاجز
No comments:
Post a Comment