Saturday 30 April 2022

دل میں چبھے نہ جن کو کبھی خار زیست کے

 دل میں چبھے نہ جن کو کبھی خار زیست کے

کیا ان پہ آشکار ہوں اسرار زیست کے

سیکھا نہیں جنہوں نے سلیقہ کلام کا

تعلیم کرنے آئے ہیں اطوار زیست کے

زیبا تھی جن کو زیست جہاں سے گزر گئے

ہم مفت میں ہوئے ہیں سزاوار زیست کے

کیوں ہم پہ ہی تمام ہوئیں غم کی نعمتیں

کیا اک ہمی ہوئے تھے گنہگار زیست کے

دیکھی ہے ہم نے رونقِ نیرنگئ حیات

منظر بدل چکے ہیں کئی بار زیست کے

چکھی ہے ہم نے موت کی لذت ہزار بار

گزرے ہیں ہم پہ حادثے دو چار زیست کے

کارِ حیات ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا

اُلجھے تو پھر سلجھ نہ سکے تار زیست کے

اِک ایک سانس کے لیے کاسہ لیے پھریں

ایسے بھی ہم نہیں ہیں طلبگار زیست کے

رنگین ہے ہمارے لہو سے نصابِ زیست

عنواں رقم کیے ہیں، سرِدار زیست کے

اب آس ہے نہ کوئی تمنا نہ جستجو

باقی نہیں ہیں زیست میں آثار زیست کے

کیا زندگی کا رنگ ہو جانے ہمارے بعد

ہم آخری امیں ہیں، طرحدار زیست کے


مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment