کوئی وظیفہ مجھے بھی بتا، مِرے درویش
تجھے ہوئی ہے فقیری عطا، مرے درویش
میں دل سے کہہ رہی تھی؛ باز آ محبت سے
وہ ہاتھ جوڑے ہوئے رو پڑا، مرے درویش
مِری خطا تو بس اتنی ہے اس تعلق میں
یہی کہ ہونی کو ہونے دیا، مرے درویش
اسے میں پیار محبت کا نام کیسے دوں
یہ اور طرح کا ہے تجربہ، مرے درویش
کہ جس نے باندھ دیا تیری ذات سے مجھ کو
یہ روح کا ہے کوئی سلسلہ، مرے درویش
ہر ایک سانس جڑی ہے تِری رضا کے ساتھ
تو کیا یہی ہے مکمّل وفا، مرے درویش
نکالنی ہے ابھی اس سے فال بھی اپنی
کہ تیرا عشق ہے آیت نما، مرے درویش
تُو زندگی کا ستارہ بھی، استعارہ بھی
مِرے لیے ہے تُو سورج نما، مرے درویش
یہ تیرا عشق مہکتا ہے رات دن مجھ میں
کہ اور کچھ نہیں مجھ میں نیا، مرے درویش
جو تیرے دھیان کی خوشبو سے نیند ٹوٹ گئی
تو پھر یہی تھی مہک جا بجا، مرے درویش
کہ اب وجود سے، موجود سے نہیں ہے غرض
ہے لا وجود کی مجھ میں صدا، مرے درویش
ناہید ورک
No comments:
Post a Comment