Wednesday 27 April 2022

ابر لکھتی ہے کہیں اور گھٹا لکھتی ہے

 ابر لکھتی ہے کہیں اور گھٹا لکھتی ہے

روز اک زخم مِرے نام ہوا لکھتی ہے

زرد پتوں کی چمکتی ہوئی پیشانی پر

ہے کوئی نام جسے باد صبا لکھتی ہے

جو مِرے نام سے منسوب نہیں ہے لیکن

وہ فسانہ بھی مِرا خلقِ خدا لکھتی ہے

اے مِری جان محبت بھی عجب شے ہے کہ جو

کوچۂ گردِ ملامت کو وفا لکھتی ہے

سُن کسی ٹوٹے ہوئے دل کا وہ نوحہ تو نہیں

نغمۂ گل کہ جسے دستِ صبا لکھتی ہے

اک تمنا کے لیے پھرتی ہے صحرا صحرا

زندگی روز کوئی خواب نیا لکھتی ہے

شب کے سناٹے میں اک ماں کی چھلکتی ہوئی آنکھ

اپنے پیاروں کے لیے حرفِ دعا لکھتی ہے

شاہد! اس کو میں سناتا ہوں پرانی غزلیں

وہ مِرے نام سے کچھ شعر نیا لکھتی ہے


شاہد کمال

No comments:

Post a Comment