Wednesday, 27 April 2022

تیر کا ڈر ہے اور نہ خنجر کا

تیر کا ڈر ہے اور نہ خنجر کا

💢آدمی ہو گیا ہے پتھر کا

جس نے نظروں سے کر دیا گھائل

دل ہے دیوانہ اس فسوں گر کا

دل کے زخموں کو بھر گیا میرے

ہے بہت شکریہ رفوگر کا

اک محبت کی یہ محبت تھی

بن گیا تاج سنگ مرمر کا

جس کو چاہا نہیں ملا ہم کو

کس سے شکوہ کریں مقدر کا

زندگی کتنی خوش نما ہوگی

ظلم کم ہو اگر ستمگر کا

میرے دل کو سکون مل جائے

ساتھ تیرا ملے جو پل بھر کا

جاؤ جا کر پتہ کرو یہ تقی

حال کیسا ہے میرے دلبر کا


تقی ککراوی

No comments:

Post a Comment