وہ برہنہ سر دوبارہ بے ردا ہو جائے گی
اور خبر اس بار بھی اک حاشیہ ہو جائے گی
اپنے گہنے بیچ کر جو ماں نے سونپی تھی مجھے
کیا خبر تھی اب وہ چھت بھی بے وفا ہو جائے گی
ان چراغ آنکھوں کے آگے ایک دن تم دیکھنا
میری ہستی ایک بجھتا سا دیا ہو جائے گی
ہم تو سمجھے تھے کہ تیری فرقتیں احساس ہیں
اب یہ جانا عمر ساری اک خلا ہو جائے گی
پھر پکاریں گے صحیفے بے بصر انصاف کو
پھر حیاتِ مضمحل اک سانحہ ہو جائے گی
پھر سلاسل بج اٹھیں گے منصفوں کے درمیاں
پھرسزا کچھ ملزموں کو بے خطا ہو جائے گی
بھوک کی فصلیں اگانے والو اک دن دیکھنا
یہ زمیں خلدِ بریں کا آئینہ ہو جائے گی
تو اسیری میں تھی ایماں جس طلسمِ ذات کی
تہنیت اب اس فسوں سے تو رہا ہو جائے گی
ایمان قیصرانی
No comments:
Post a Comment