Saturday, 30 April 2022

وہ برہنہ سر دوبارہ بے ردا ہو جائے گی

 وہ برہنہ سر دوبارہ بے ردا ہو جائے گی

اور خبر اس بار بھی اک حاشیہ ہو جائے گی

اپنے گہنے بیچ کر جو ماں نے سونپی تھی مجھے

کیا خبر تھی اب وہ چھت بھی بے وفا ہو جائے گی

ان چراغ آنکھوں کے آگے ایک دن تم دیکھنا

میری ہستی ایک بجھتا سا دیا ہو جائے گی

ہم تو سمجھے تھے کہ تیری فرقتیں احساس ہیں

اب یہ جانا عمر ساری اک خلا ہو جائے گی

پھر پکاریں گے صحیفے بے بصر انصاف کو

پھر حیاتِ مضمحل اک سانحہ ہو جائے گی

پھر سلاسل بج اٹھیں گے منصفوں کے درمیاں

پھرسزا کچھ ملزموں کو بے خطا ہو جائے گی

بھوک کی فصلیں اگانے والو اک دن دیکھنا

یہ زمیں خلدِ بریں کا آئینہ ہو جائے گی

تو اسیری میں تھی ایماں جس طلسمِ ذات کی

تہنیت اب اس فسوں سے تو رہا ہو جائے گی


ایمان قیصرانی

No comments:

Post a Comment