گرفتِ خاک سے باہر مجھے نکلنے دے
اے دشتِ خواب مجھے دو قدم تو چلنے دے
جو ہو سکے مِرے اشکوں کو منجمد مت کر
ہوائے شہرِ خرابی مجھے پگھلنے دے
اے دشتِ شام کی پاگل ہوا بجھا نہ مجھے
نواحِ شب میں کوئی تو چراغ جلنے دے
نہ روک مجھ کو کہیں بھی تو اے ستارۂ ہجر
میں چل پڑا ہوں، کوئی راستہ نکلنے دے
وہ قطرہ قطرہ سحر آنکھ میں طلوع تو ہو
اے ماہِ شب، نم شبنم میں مجھ کو ڈھلنے دے
اسے کہو، نہ ابھی بال و پر کشادہ کرے
ابھی کچھ اور ہواؤں کو رخ بدلنے دے
خالد علیم
No comments:
Post a Comment