Saturday 30 April 2022

کار بے کار سے آگے کا قدم لیتا ہوں

 کارِ بے کار سے آگے کا قدم لیتا ہوں 

جو بناتا ہوں اسے توڑ کے دم لیتا ہوں

خاک میں ملتا ہوا دادِ فنا دیتا ہوا 

بعض اوقات تو میں راہِ عدم لیتا ہوں

اس محبت کو بہت دیر سہا ہے میں نے 

اب اِسے دے کے کوئی دوسرا غم لیتا ہوں

بے قراری ہی کچھ ایسی ہے مِری مٹی میں 

جب بھی مرتا ہوں کوئی اور جنم لیتا ہوں

تجھ کو کیا علم مِری ترسی ہوئی خواہش کا 

میں ہواؤں سے تِرے ہونٹ کا نم لیتا ہوں

ایک دیوار پہ لٹکی ہوئی تصویروں کو 

ایسے تکتا ہوں کہ پھر سانس بھی کم لیتا ہوں


مقصود وفا

No comments:

Post a Comment