Friday 29 April 2022

تمہیں اب اس سے زیادہ سزا نہیں دوں گا

 تمہیں اب اس سے زیادہ سزا نہیں دوں گا

دعائیں دوں گا مگر بد دعا نہیں دوں گا

تری طرف سے لڑوں گا میں تیری ہر اک جنگ

رہوں گا ساتھ مگر حوصلہ نہیں دوں گا

تِری زبان پہ موقوف میرے ہاتھ کا لمس

نوالہ دوں گا، مگر ذائقہ نہیں دوں گا

میں پہلے بوسہ سے نا آشنا رکھوں گا تمہیں

پھر اس کے بعد تمہیں دوسرا نہیں دوں گا

پھر ایک بار گزر جاؤ میرے اوپر سے

میں اس کے بعد تمہیں راستہ نہیں دوں گا

کہ تُو تلاش کرے اور میں تجھ کو مل جاؤں

میں تیری آنکھ کو اتنی سزا نہیں دوں گا

بھگائے رکھوں گا اپنی عدالتوں میں تمہیں

تمام عمر تمہیں فیصلہ نہیں دوں گا

تِری انا کے لیے صرف یہ سزا ہے بہت

تُو جا رہا ہے تو تجھ کو صدا نہیں دوں گا

کہ اب کی بار لیاقت! ہوا ہوا سو ہوا

میں اس کے ہاتھ میں اب آئینہ نہیں دوں گا


لیاقت جعفری

No comments:

Post a Comment