غیر کے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے پھرنا
تِری عادت ہے یونہی بوجھ اٹھائے پھرنا
کیسی وحشت ہے کہ جو شخص تِرا تھا ہی نہیں
یاد کر کر کے اسے ہوش گنوائے پھرنا
کیا ہوا، بول، بتا، کون بھلا پوچھے گا
وہی آنسو ہے اگر روز بہائے پھرنا
کیا ہے انجام تِرا سوچ ذرا تو ناداں
ہو کے مجنوں تِرا پتھر سے بنائے پھرنا
جو نہ آوارہ کہوں اور کہوں کیا تجھ کو
اس کی گلیوں میں یوں راتوں کو جگائے پھرنا
یہ غزل گوئی بھی لگتی ہے نشہ اک تیرا
شعر کہہ کہہ کے رقیبوں کو جلائے پھرنا
مانو ابرک! وہ گیا، روٹھ گیا، چھوڑ گیا
خود سے اچھا نہیں یہ بات چھپائے پھرنا
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment