Friday, 29 April 2022

نام سحر ہے سب کچھ کالا

 نام سحر ہے سب کچھ کالا

سچا ہو کوئی چاہنے والا

امرت کی میں آس لگائے

پیتی رہی ہوں زہر کا پیالہ

کتنی دور ابھی منزل ہے

پوچھ رہا ہے پاؤں کا چھالا

سچ کا گلہ میں گھونٹ رہی تھی

جھوٹ کو اس نے خوب اچھالا

طوفانوں میں گھری ہوئی ہوں

جب سے میں نے ہوش سنبھالا

من میں مورت کوئی نہیں تھی

سونا سونا من کا شوالا

اڑ گیا دودھ بتاشا کھا کر

بڑے شوق سے طوطا پالا

سچائی بھی جھوٹ بن گئی

اتنا چڑھایا مرچ مسالا

بات بات میں سحر کے دل کو

تم نے تو گھائل کر ڈالا


عفراء بتول سحر

No comments:

Post a Comment