نام سحر ہے سب کچھ کالا
سچا ہو کوئی چاہنے والا
امرت کی میں آس لگائے
پیتی رہی ہوں زہر کا پیالہ
کتنی دور ابھی منزل ہے
پوچھ رہا ہے پاؤں کا چھالا
سچ کا گلہ میں گھونٹ رہی تھی
جھوٹ کو اس نے خوب اچھالا
طوفانوں میں گھری ہوئی ہوں
جب سے میں نے ہوش سنبھالا
من میں مورت کوئی نہیں تھی
سونا سونا من کا شوالا
اڑ گیا دودھ بتاشا کھا کر
بڑے شوق سے طوطا پالا
سچائی بھی جھوٹ بن گئی
اتنا چڑھایا مرچ مسالا
بات بات میں سحر کے دل کو
تم نے تو گھائل کر ڈالا
عفراء بتول سحر
No comments:
Post a Comment