Thursday, 28 April 2022

رہنا تھا مجھ کو تیری نظر کے کمال میں

 رہنا تھا مجھ کو تیری نظر کے کمال میں

لیکن میں دن گزار رہی ہوں زوال میں

گھیرا ہے اس طرح مجھے وحشت کے جال نے

سب خواب میرے ڈوب گئے اس ملال میں

مجھ سے نظر چُرا کے گزرنے لگی ہوا

آنے لگی جو ہجر کی خوشبو وصال میں

ہوں ساعتِ عذاب میں کیوں میں ابھی تلک

اک عمر سے گِھری ہوں اسی اک سوال میں

بے چینیاں تمام ہی میں اُس کی اوڑھ لوں

شامل مجھے کرے تو کبھی اپنے حال میں

میں سُن رہی ہوں پھر سے جدائی کی آہٹیں

جینا پڑے نہ پھر سے اُنہی ماہ و سال میں

قسمت سے راہ میں جو جزیرے ہمیں ملے

تیرے گمان میں تھے، نہ میرے خیال میں


ناہید ورک

No comments:

Post a Comment