Saturday 30 April 2022

بھول بھلیوں کے اندر اک دوڑ مچی ہے

 بھول بھلیاں


بھول بھلیوں کے اندر اک

دوڑ مچی ہے

پیچیدہ رستوں کے لاکھوں

جال بچھے ہیں

نئی نئی گلیاں اونچی اونچی دیواریں

دوراہے، چوراہے سب انجان ہیں لیکن

جانے پہچانے لگتے ہیں

دلدل، خندق، تپتے پتھر

خار و خس ہر رستے پر ہیں

ان گلیوں میں

دیواروں کے آگے پیچھے

بچے پھر بھی بھول بھلیوں

کے اک کھیل میں کھوئے ہوئے ہیں

کچھ ناداں ایسے بھی ہیں جو

دروازوں کی

کھوج میں سرگرداں رہتے ہیں

جن کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے


پروین شیر

No comments:

Post a Comment