ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے
ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے
جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے
جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے
خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح
ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے
سرخ پھولوں کا نہیں زرد اداسی کا سہی
رنگ کچھ تو مِری تصویر میں بھرتا جائے
مجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے
کب میں کہتا ہوں؛ مجھے پیار ہی کرتا جائے
گھر کی دیوار کو اتنا بھی تو اونچا نہ بنا
تیرا ہمسایہ تِرے سائے سے ڈرتا جائے
افتخار نسیم افتی
No comments:
Post a Comment