Thursday 28 April 2022

ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے

 ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے

ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے

جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے

جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے

خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح

ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے

سرخ پھولوں کا نہیں زرد اداسی کا سہی

رنگ کچھ تو مِری تصویر میں بھرتا جائے

مجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے

کب میں کہتا ہوں؛ مجھے پیار ہی کرتا جائے

گھر کی دیوار کو اتنا بھی تو اونچا نہ بنا

تیرا ہمسایہ تِرے سائے سے ڈرتا جائے


افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment