Friday 29 April 2022

میرے ذہن میں ہیں بہت سے دکھ تیرے بعد بھی

 میرے ذہن میں ہیں بہت سے دکھ تیرے بعد بھی

کہیں کسی بھی دکھ کی دوا نہیں تیرے بعد بھی

میری دسترس میں تھے سارے جہان کے راستے

سو سفر کا یونہی چلا گیا وہی سلسلہ تیرے بعد بھی

جو سفر تھا جانب منزلِ مقصود وہ تو نہیں رہا

مگر ایسا لگتا تھا جیسے ہے نیا مرحلہ تیرے بعد بھی

یہ سفر کے سب نئے مرحلے ہیں میرے لیے نئی رہگزر

جو رکوں تو رستہ ہے گمشدہ جو چلوں تو پھر وہی سلسلہ

جو میں خود کو تلاش کروں تو پھر ہے بہت عجیب سا معاملہ

میں جو تیرے ہونے سا تھا وجود ہوگیا دھواں دھواں

میرے ہونے کا تھا غرور جو وہ نہیں رہا میرے ساتھ اب

گو جو وقت کی تھی عنایتیں سبھی ہیں یہاں تیرے بعد بھی

میرے خواب تھے جو حسیں بہت ہوئے ریزہ ریزہ سے سب یہاں

میرے ذہن میں ہے وہ سب سماں جو تھا خواب سا تیرے بعد بھی

سبھی سلسلے سبھی قافلے ہیں رواں دواں کسی سمت میں

رہا میں ہی بس یونہی دربدر کبھی اِس نگر کبھی اُس نگر

رہا منزلوں کی تلاش میں اور خاک گلیوں کی چھانتا

کبھی روشنی، کبھی زندگی، کبھی دلکشی، کبھی سرکشی

یہی سلسلہ روزہ شب یونہی ہے رواں تیرے بعد بھی

وہ جو خواہشوں کا تھا سلسلہ تیرے جاتے ہی ہوا یوں تمام

کہ میں آج تک ہوں یہ سوچتی کہ یہ سب ہیں خواہشیں ناتمام

یہ جو سلسلہ ہے روز و شب چلے کب تلک تیرے بعد بھی


تسنیم مرزا

No comments:

Post a Comment