اب کے سن بدلا تو، یہ بھی معجزہ ہو جائے گا
اس کا میں ہو جاؤں گا، یا وہ مِرا ہو جائے گا
بخش جائے گا مجھے اپنی رفاقت کا عذاب
اپنا عادی کر کے وہ مجھ سے جدا ہو جائے گا
شک بھری حیرت سے میں بھی آئینے بدلاؤں گا
وقت کی گردش میں وہ بھی کیا سے کیا ہو جائے گا
رفتہ رفتہ ہجر کی ٹھنڈک بدن پر چھائے گی
رفتہ رفتہ سانس لینا بھی سزا ہو جائے گا
کیا خبر تھی جذب کر لے گا زمیں کو ماہتاب
دھیرے دھیرے زخمِ دل، دل سے بڑا ہو جائے گا
مجھ پہ جو واجب نہیں، اس مستحب کے شوق میں
ڈر ہے مجھ کو فرض بھی مجھ سے قضا ہو جائے گا
یہ قیامت بھی گزرنا تھی مِرے دل پر نعیم
میرے جیسا آدمی بھی بے وفا ہو جائے گا
نعیم جاوید
No comments:
Post a Comment