میرے ہمسفر، تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اسے دیکھتے، اسے جھیلتے
میری آنکھ گرد سے اٹ گئی
میرے خواب ریت میں کھو گئے
میرے ہاتھ برف سے ہو گئے
میرے بے خبر، تیرے نام پر
وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹوں پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر
وہ نہیں رہے
وہ نہیںرہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں
وہ بکھر گیا
وہ ہوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں، وہ گرا دئیے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر، وہ اڑا دئیے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مٹا دئیے
میرے ہمسفر، ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے، اسے کاٹتے
میرا سارا وقت نکل گیا
تو میرے سفر کا شریک ہے
میں تیرے سفر کا شریک ہوں
پر جو درمیاں سے نکل گیا
اسی فاصلے کے شمار میں
اسی بے یقیں سے غبار میں
اسی راہگزر کے حصار میں
تیرا راستہ کوئی اور ہے
میرا راستہ کوئی اور ہے
ناصرہ زبیری
No comments:
Post a Comment