میں خرد مند رہوں،۔ یا تِرا وحشی ہو جاؤں
جو بھی ہونا ہے مجھے عشق میں جلدی ہو جاؤں
زندگی چاک کی گردش کے سوا کچھ بھی نہیں
میں اگر کوزہ گری چھوڑ دوں، مٹی ہو جاؤں
پھر سے لے جائے مِری ذات سے تُو عشق ادھار
اور میں پھر سے تِرے حسن پہ باقی ہو جاؤں
کوئی دم تو مِرے چہرے پہ خوشی بن کے ابھر
کوئی دم میں تِرے چہرے کی خوشی ہو جاؤں
اس کی جانب سے کوئی ہجر مجھے آ کے لگے
اور میں معرکۂ عشق میں زخمی ہو جاؤں
جبر کی طرح کوئی جبر کروں اپنے ساتھ
کیوں نہ کچھ دیر کو میں اپنے پہ حاوی ہو جاؤں
ابھیشیک شکلا
No comments:
Post a Comment