Friday 29 April 2022

شام ہوتی ہے تو یاد آتی ہے ساری باتیں

شام ہوتی ہے تو یاد آتی ہے ساری باتیں

وہ دوپہروں کی خموشی وہ ہماری باتیں

آنکھیں کھولوں تو دکھائی نہیں دیتا کوئی

بند کرتا ہوں تو ہو جاتی ہیں جاری باتیں

کبھی اک حرف نکلتا نہیں منہ سے میرے

کبھی اک سانس میں کر جاتا ہوں ساری باتیں

جانے کس خاک میں پوشیدہ ہیں آنسو میرے

کن فضاؤں میں معلق ہیں تمہاری باتیں

کس ملاقات کی امید لیے بیٹھا ہوں

میں نے کس دن پہ اٹھا رکھی ہیں ساری باتیں


احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment