Saturday, 30 April 2022

ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا

 ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا

وہ خود ہی جمع ہوا اور خود بکھر بھی گیا

تھی زندگی مِری راہوں کے پیچ و خم کی اسیر

مگر میں رات کے ہمراہ اپنے گھر بھی گیا

میں دشمنوں میں بھی گھر کر نڈر رہا لیکن

خود اپنے جذبۂ حیوانیت سے ڈر بھی گیا

مِرے لہو کی طلب نے مجھے تباہ کیا

ہوس میں سنگ کی ہاتھوں سے میرے سر بھی گیا

ہے لفظ و معنی کا رشتہ زوال آمادہ

خیال پیدا ہوا بھی نہ تھا کہ مر بھی گیا

صلہ یہ منزل مقصود کا ملا شاداب

سفر تمام ہوا اور ہمسفر بھی گیا


عقیل شاداب

No comments:

Post a Comment