Wednesday, 27 April 2022

ہم جو اس عہد ستمگر میں کبھی ہنستے ہیں

 ہم جو اس عہدِ ستمگر میں کبھی ہنستے ہیں 

دیکھ کر خندۂ گریاں کو سبھی ہنستے ہیں

کرتی رہتی ہیں یہ آنکھیں تو بغاوت اکثر

تیرتی رہتی ہے آنکھوں میں نمی ہنستے ہیں

تیری محفل کا تقاضا ہے کہ ہنستے جائیں

دل بھی ہنستا ہے کہ یہ کیسی ہنسی ہنستے ہیں 

سچ کہیں تم سے، کبھی جھوٹ نہیں بولتے ہم 

دنیا داری کو مگر، جھوٹی ہنسی ہنستے ہیں

یہ بھی کیا طرفہ تماشہ ہے کہ ہم پر اکثر 

جن کو روتے سے ہنسایا تھا، وہی ہنستے ہیں

خود سمجھدار ہیں وہ، کھل کے انہیں ہنسنے دو

دل لگی، جن کے نہیں دل کو لگی، ہنستے ہیں

ہم کبھی اس کا رویہ نہ سمجھ پائے خیال

اس کی باتوں پہ کبھی روتے، کبھی ہنستے ہیں


مستحسن خیال

No comments:

Post a Comment