کل چمن ہو، گلاب تھوڑی ہو
میرا آنگن ہو، باب تھوڑی ہو
خواب ہوتے تو بھول بھی جاتے
تم حقیقت ہو خواب تھوڑی ہو
میں تِری جستجو کا مرکز ہوں
تم مِرا انتخاب تھوڑی ہو
سر پہ چڑھ کر جو بولتی ہو تم
تم ہو لڑکی، شراب تھوڑی ہو
ہیں ستاروں کی زد پہ ہم بھی
ایک تم ہی نایاب تھوڑی ہو
کیسے تجھ کو معصومہ دیکھے
بزم میں بس جناب تھوڑی ہو
معصومہ رضا
No comments:
Post a Comment