دریا کبھی اک حال میں بہتا نہ رہے گا
رہ جاؤں گا میں اور کوئی مجھ سا نہ رہے گا
اچھا ہے، نہ دیکھیں گے نہ محسوس کریں گے
آنکھیں نہ رہیں گی تو تماشا نہ رہے گا
وہ خاک اُڑے گی کہ نہ دیکھی نہ سُنی ہو
دیوانہ تو کیا چیز ہے صحرا نہ رہے گا
تُو کچھ بھی ہو، کب تک تجھے ہم یاد کریں گے
تا حشر تو یہ دل بھی دھڑکتا نہ رہے گا
آخر مِرے سینے کے بھی ناسور بھریں گے
یہ باغ سدا رنگ دِکھاتا نہ رہے گا
شہزاد احمد
No comments:
Post a Comment