Saturday, 30 April 2022

کتنے بھولے ہوئے نغمات سنانے آئے

 کتنے بھولے ہوئے نغمات سنانے آئے

پھر تِرے خواب مجھے مجھ سے چرانے آئے

پھر دھنک رنگ تمناؤں نے گھیرا مجھ کو

پھر تِرے خط مجھے دیوانہ بنانے آئے

پھر تِری یاد میں آنکھیں ہوئیں شبنم شبنم

پھر وہی نیند نہ آنے کے زمانے آئے

پھر تِرا ذکر کیا باد صبا نے مجھ سے

پھر مِرے دل کو دھڑکنے کے بہانے آئے

پھر مِرے کاسۂ خالی کا مقدر جاگا

پھر مِرے ہاتھ محبت کے خزانے آئے

شرط سیلاب سمونے کی لگا رکھی تھی

اور دو اشک بھی ہم سے نہ چھپانے آئے


اقبال اشہر

اقبال اشعر

No comments:

Post a Comment