دھڑ زمیں سے مل گیا، پر آسماں سے مل گئے
کچھ سبق تو ہم کو تیری داستاں سے مل گئے
یہ شرافت ہے ہماری،۔ یا ہمارا المیہ
جو جہاں پر رکھ گیا اس کو وہاں سے مل گئے
ہم بتائیں، کیا ملا ہے دوستی کی آڑ میں
دھوپ کے سب ذائقے اک سائباں سے مل گئے
آدمی کے عشق کی اوقات کیا ہے دیکھئے
جب فرشتوں کے نشاں کوئے بُتاں سے مل گئے
اب بہت ہیں دوست میرے، ہمسفر اور ہمنوا
زندگی جب کاٹ لی تب کارواں سے مل گئے
فیصل صاحب
No comments:
Post a Comment