تمہیں عادت ہے بچپن سے ہر اک شے چھین لینے کی
میرے دو کے برابر لڑ جھگڑ کے تین لینے کی
چلو ایسا کرو کہ آج سے یہ گھر تمہیں رکھ لو
یہ گھر جس میں مرے بچپن کی یادوں کے خزانے ہیں
وہ کمرہ، جہاں پیدا ہوئے تھے
وہ، چولہا، جس میں اکثر بیٹھ کے ہم کھانا کھاتے تھے
وہ جُھولا جس میں تم اکثر اکڑ کے بیٹھ جاتے تھے
وہ اماں کی، ڈنگوری، جو ہمیشہ مجھ پہ پڑتی تھی
میں جونہی بھاگتا تھا وہ مجھے جھٹ سے پکڑتی تھی
پکڑ کے میرے کاندھے کو
کہا کرتی تھی سن بیٹا
قسم ہے تجھ کو میرے دودھ کی وعدہ کرو مجھ سے
کبھی جو یہ کوئی بھی شے تقاضا کر کے مانگے تو
اسے انکار مت کرنا
افضل عاجز
افضل داد
No comments:
Post a Comment