ظلمتِ شب ہے پاس کوئی نہیں
پھر سحر کی اساس کوئی نہیں
تُو کنارہ عطا کرے تو کرے
ناخدا سے تو آس کوئی نہیں
تشنگی تجھ میں ہے زمانے کی
میرے دریا میں پیاس کوئی نہیں
چشمِ ساقی کا فیض ہے سارا
آج خالی گلاس کوئی نہیں
فکر کے وہ لباس کیسے بنے
جس کے من میں کپاس کوئی نہیں
نفرتوں کے غبار میں گم ہیں
شہر میں بدحواس کوئی نہیں
اس نے خط میں لکھا ہے اشکوں سے
بِن تمہارے اداس کوئی نہیں
اقبال طارق
No comments:
Post a Comment