پھول مہتاب ستاروں کی ضرورت کیا ہے
تم اگر ہو تو بہاروں کی ضرورت کیا ہے
چھوڑ کے جاتے ہوئے ہاتھ ہلانے والے
تیرے اندھوں کو اشاروں کی ضرورت کیا ہے
جن کی آنکھوں میں تِری آنکھیں رہا کرتی ہوں
ان کو پھر اور نظاروں کی ضرورت کیا ہے
آپ تو وصل کی راحت کے طلبگار رہے
آپ کو ہجر کے ماروں کی ضرورت کیا ہے
جب مجھے زہر میسر نہ ہوا سانپوں سے
تب میں یہ سمجھا کہ یاروں کی ضرورت کیا ہے
جو مصیبت میں کبهی کام نہ آئیں عابد
ایسے بیکار سہاروں کی ضرورت کیا ہے
علی عابد
No comments:
Post a Comment