تمہاری یاد کی لو تن سے جب اترتی ہے
بڑی خموشی سے آنگن میں شب اترتی ہے
تیرے خیال کی لو تن سے جب اترتی ہے
بڑی خموشی سے آنگن میں شب اترتی ہے
تمہارا ساتھ تسلسل سے چاہیۓ مجھ کو
تھکن زمانوں کی لمحوں میں کب اترتی ہے
تجھے میں جانتا ہوں چھاؤں کے حوالے سے
یہ دل میں دھوپ سی کس کے سبب اترتی ہے
عجیب شکل میں شب کی منڈیر سے اکثر
مِرے وجود میں تیری طلب اترتی ہے
دِیے کی لو تو ہواؤں سے بجھ گئی عرفان
یہ کیسی روشنی آنکھوں میں اب اترتی ہے
عرفان صادق
No comments:
Post a Comment