Saturday 30 April 2022

تمہاری یاد کی لو تن سے جب اترتی ہے

 تمہاری یاد کی لو تن سے جب اترتی ہے

بڑی خموشی سے آنگن میں شب اترتی ہے

‏تیرے خیال کی لو تن سے جب اترتی ہے

بڑی خموشی سے آنگن میں شب اترتی ہے

تمہارا ساتھ تسلسل سے چاہیۓ مجھ کو

تھکن زمانوں کی لمحوں میں کب اترتی ہے

تجھے میں جانتا ہوں چھاؤں کے حوالے سے

یہ دل میں دھوپ سی کس کے سبب اترتی ہے

عجیب شکل میں شب کی منڈیر سے اکثر

مِرے وجود میں تیری طلب اترتی ہے

دِیے کی لو تو ہواؤں سے بجھ گئی عرفان

یہ کیسی روشنی آنکھوں میں اب اترتی ہے


عرفان صادق

No comments:

Post a Comment