اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے میری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
میرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رُتیں
انہیں رُتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل ، یہ سراسر نگار خانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment