Saturday, 30 April 2022

اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام

 اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام

پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے میری

کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

میرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے

جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام

بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رُتیں

انہیں رُتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ میرا دل ، یہ سراسر نگار خانۂ غم

سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا

کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام


محسن نقوی

No comments:

Post a Comment