Saturday, 30 April 2022

میں نظمیں خریدنا چاہتی ہوں جن میں میرا دکھ سمویا ہوا ہو

 میں نظمیں خریدنا چاہتی ہوں

لیکن ایسی نظمیں 

جن میں میرا دکھ سمویا ہوا ہو

جن میں میری ہنسی چھپی ہوئی ہو

جن میں میرے آنسو 

موتیوں کی طرح لگیں مجھے

اور جن کے ہاتھ

میرے بالوں کو سہلاتے رہیں

میری آنکھوں میں ٹوٹے خواب ہوں

تو وہ میری آنکھوں میں کجلا بھر دیں

میرے گالوں پر آنسوؤں کی نمی ہو 

تو وہ انگلیوں سے غازہ لگا دیں

میرے بال بکھرے ہوئے ہوں

تو وہ  سلیقے سے باندھ دیں

میں تھک جاؤں تو میرا جسم دبا دیں

اور کبھی میرا رونے کو جی چاہے

تو گلے لگ کر رونا شروع کر دیں

جیسے ان کا بھی کوئی اپنا مر گیا ہو

میں ایسی نظمیں خریدنا چاہتی ہوں

اور میں جانتی ہوں 

ایسی نظمیں جان دے کر خریدی جاتی ہیں

اور جان دے کر بیچی جاتی ہیں


جویریہ احمد

No comments:

Post a Comment