میں نظمیں خریدنا چاہتی ہوں
لیکن ایسی نظمیں
جن میں میرا دکھ سمویا ہوا ہو
جن میں میری ہنسی چھپی ہوئی ہو
جن میں میرے آنسو
موتیوں کی طرح لگیں مجھے
اور جن کے ہاتھ
میرے بالوں کو سہلاتے رہیں
میری آنکھوں میں ٹوٹے خواب ہوں
تو وہ میری آنکھوں میں کجلا بھر دیں
میرے گالوں پر آنسوؤں کی نمی ہو
تو وہ انگلیوں سے غازہ لگا دیں
میرے بال بکھرے ہوئے ہوں
تو وہ سلیقے سے باندھ دیں
میں تھک جاؤں تو میرا جسم دبا دیں
اور کبھی میرا رونے کو جی چاہے
تو گلے لگ کر رونا شروع کر دیں
جیسے ان کا بھی کوئی اپنا مر گیا ہو
میں ایسی نظمیں خریدنا چاہتی ہوں
اور میں جانتی ہوں
ایسی نظمیں جان دے کر خریدی جاتی ہیں
اور جان دے کر بیچی جاتی ہیں
جویریہ احمد
No comments:
Post a Comment