Thursday, 28 April 2022

کہانی ختم ہو گی یا تماشا ہونے والا ہے

کہانی ختم ہو گی یا تماشا ہونے والا ہے 

کسے معلوم ہے فارس یہاں کیا ہونے والا ہے 

پرندے، چیونٹیاں اور لوگ ہجرت کرتے جاتے ہیں

ہمارے شہر میں کیا حشر برپا ہونے والا ہے 

ذخیرہ کر لو آنسو اپنی آنکھوں کے کٹوروں میں

یہاں اب پانی مہنگا، خون سستا ہونے والا ہے 

تو کیا ہم لوگ پھر سے دھوکا نامی تیر کھائیں گے

تو کیا زخمِ ندامت اور گہرا ہونے والا ہے 

ترازو سج چکے ہیں، اور بولی لگنے والی ہے

تو کیا پھر سے مِرے خوابوں کا سودا ہونے والا ہے 

تو کیا اب فاختائیں اور ہرن پیاسے ہی مر جائیں

تو کیا اب جھیل پر سانپوں کا قبضہ ہونے والا ہے 

کبھی تشویش کہتی ہے اندھیرا اب نہ جائے گا

کبھی امید کہتی ہے؛ اجالا ہونے والا ہے 

اُدھر طے ہے کہ؛ مرگِ ناگہانی لازمی ٹھہری

اِدھر ضد ہے؛ نہیں بیمار اچھا ہونے والا ہے 

وہی کارِ بغاوت جو کہ سینوں میں ہے پوشیدہ

ابھی تک ہو نہیں پایا لہٰذا ہونے والا ہے 

ریاست کی نہیں یہ آپ کی اپنی ہی میّت ہے

ابھی کچھ دیر تو بیٹھیں، جنازہ ہونے والا ہے 

کہیں شر بھاگا پھرتا ہے، کہیں مصروف ہے سازش

تو کیا شیطان کے ہاں پھر سے بچہ ہونے والا ہے 

جسے تم نے ہمیشہ رینگتے دیکھا، میاں فارس 

وہ اب اونچی فضاؤں کا پرندہ ہونے والا ہے 


رحمان فارس

No comments:

Post a Comment