Wednesday 27 April 2022

آکاش سے گواہی تو لانے سے میں رہی

 آکاش سے گواہی تو لانے سے میں رہی

شجرہ اٹھا کے سر پہ سجانے سے میں رہی

جتنا کسی میں ظرف تھا ویسا ہی کہہ دیا

قسموں سے آبرو تو بچانے سے میں رہی

آنکھوں سے جس کو درد یہ پڑھنا نہ آ سکا

دل چیر کے تو اس کو دِکھانے سے میں رہی

شعلہ تھی تیرے واسطے میں راکھ ہو گئی

یہ راکھ اپنے ہاتھوں اڑانے سے میں رہی

سوری بھی کہہ چکی ہوں، ہے دل میں ملال بھی

قدموں میں آ کے سر تو جھکانے سے میں رہی

شب بھر دعائیں، وِرد وظیفے بھی کر چکی

تقدیر کا لکھا تو مٹانے سے میں رہی

جتنا پڑا تھا آنکھ میں، صحرا کو نم دیا

دریا اٹھا کے دشت میں لانے سے میں رہی


فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment