آکاش سے گواہی تو لانے سے میں رہی
شجرہ اٹھا کے سر پہ سجانے سے میں رہی
جتنا کسی میں ظرف تھا ویسا ہی کہہ دیا
قسموں سے آبرو تو بچانے سے میں رہی
آنکھوں سے جس کو درد یہ پڑھنا نہ آ سکا
دل چیر کے تو اس کو دِکھانے سے میں رہی
شعلہ تھی تیرے واسطے میں راکھ ہو گئی
یہ راکھ اپنے ہاتھوں اڑانے سے میں رہی
سوری بھی کہہ چکی ہوں، ہے دل میں ملال بھی
قدموں میں آ کے سر تو جھکانے سے میں رہی
شب بھر دعائیں، وِرد وظیفے بھی کر چکی
تقدیر کا لکھا تو مٹانے سے میں رہی
جتنا پڑا تھا آنکھ میں، صحرا کو نم دیا
دریا اٹھا کے دشت میں لانے سے میں رہی
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment